اسلام آباد (جنگ):اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وزارت داخلہ کو حکم دیا ہے کہ فیض آباد خالی کرائیں بے شک کسی کو خراش نہ آئے۔
فیض آباد میں 15 روز سے جاری دھرنے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوا، آپ اس معاملے میں بے بس ہیں ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدالتی حکم کےباوجود دھرنا ختم نہ کرانے پر آئی جی اسلام آباد ،چیف کمشنراسلام آباد اور سیکرٹری داخلہ کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کردیا،جسٹس شوکت عزیز نے دھرنا دینے والوں کو احتجاج کے لیے مختص جگہ بھیجنے کا حکم دے دیا۔
حکومت نے دھرنا ختم کرانے کے لیے عدالت سے مزید اڑتالیس گھنٹے مانگ لئے۔
وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ جسٹس صاحب آپ ہم سے زیادہ باخبر ہیں خدشہ ہے کہ تمام معاملہ آئندہ انتخابات کے لیے ہورہاہے، چوٹی کے علماء نے امید دلائی کہ ہمیں کامیابی ہوگی، انہوں نے کی عدالت سے استدعا کی کہ دھرنا ختم کرانے کے لئے جمعرات تک کا وقت دیا جائے۔
عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مظاہرین کو گرفتار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اگر فیض آباد خالی نہیں کرایا جاسکا، عدالت لاکھوں لوگوں کے بنیادی حقوق کی محافظ ہے،وہ سیاسی جماعت ہے سیکولر ہے یا مذہبی ،عدالت کو اس سے غرض نہیں۔عدالت کو صرف یہ غرض ہے کہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیسے کیا جائے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سماعت کے دوران کہا کہ یہ ضلعی انتظامیہ کی نااہلی اور ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ بطور جج لاکھوں لوگوں کے بنیادی حقوق کا محافظ ہوں ، دھرنے والے اتنی اہم جگہ تک کیسے پہنچے سمجھ سے بالا تر ہے، یہ حکمت عملی کے تحت کیا جاتا ہے کہ اسٹریٹجک سپلائی لائن کاٹ دی جائے ۔
اس سے پہلے مقدمےکی سماعت کے آغاز پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 126افراد گرفتار کیے اور ایف آئی آرز بھی درج کی گئیں۔
جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے کہا کہ گرفتاریوں کو کوئی فائدہ نہیں اگر فیض آباد خالی نہیں کرایا جاسکا۔
وزیر داخلہ احسن اقبال نے عدالت کو بتایا کہ دھرنے والوں نے لاہور سے سفر شروع کیا تو پنجاب حکومت کو یقین دہانی کرائی کہ دھرنا نہیں دیںگے، صرف احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ 4، 5 ہزار افراد شہریوں کے حقوق کیسے سلب کررہے ہیں، اصل مسئلہ صرف لاء اینڈ آرڈر کا ہے، طالب علموں اور مریضوں کا کیا قصور ہے؟
اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل کہا کہ کچھ باتیں ایسی ہیں جو کھلی عدالت میں نہیں بتائی جاسکتی۔
جسٹس شوکت عزیز نے کہا آپ نے جو کچھ کہنا ہے اوپن کورٹ میں کہیں ، آپ نے یہی کہنا ہوگا مظاہرین کے پاس ہتھیارہیں اور انہوں نے پتھر بھی جمع کررکھے ہیں، ایک ہی دفعہ قوم کو خطاب کرکے بتا دیں ہمیں کام نہیں کرنے دیا جارہا۔
عدالت نے فریقین کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرتے ہوئے مزید سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔